ہوا کے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی
بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی
کہانی کا جنہیں کچھ تجربہ ہے، جانتے ہیں
دیا پہنچا نہیں تھا، آگ پہنچی تھی گھروں تک
اور ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی
ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا ہم ہیں، یہیں ہیں
کہ جب موجودگی، موجودگی ہوتی نہیں تھی
تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے
ہمارا وقت اچھا تھا، گھڑی ہوتی نہیں تھی
ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آساں تھا کیا
محبت ایک تھی اور ایک بھی ہوتی نہیں تھی
گزرنے میں بہت آسانی رہتی تھی اِدھر سے
یہ گھر ہوتے تھے لیکن یہ گلی ہوتی نہیں تھی
دیا پہنچا نہیں تھا آگ پہنچی تھی گھروں تک
پھر ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی
نکل جاتے تھے سر پر بے سر و سامانی لادے
بھری لگتی تھی گٹھڑی اور بھری ہوتی نہیں تھی
ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا
شبِ ہجراں جب اتنی سرسری ہوتی نہیں تھی
بہت تکرار رہتی تھی بھرے گھر میں کسی سے
جو شے درکار ہوتی تھی وہی ہوتی نہیں تھی
اچانک مصـرع جاں سے برآمد ہونے والے
کہاں ہوتا تھا تُو جب شاعری ہوتی نہیں تھی
کہو تو گفتگو سنواؤں تم کو ان دنوں کی
ہمارے درمیاں جب بات بھی ہوتی نہیں تھی
شاہین عباس
No comments:
Post a Comment