Friday, 17 January 2020

ہوا کے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی

ہوا کے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی
بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی
کہانی کا جنہیں کچھ تجربہ ہے، جانتے ہیں 
کہ دن کیسے ہوا، جب رات بھی ہوتی نہیں تھی
دیا پہنچا نہیں تھا، آگ پہنچی تھی گھروں تک 
اور ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی 
ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا ہم ہیں، یہیں ہیں
کہ جب موجودگی، موجودگی ہوتی نہیں تھی
تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے
ہمارا وقت اچھا تھا، گھڑی ہوتی نہیں تھی
ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آساں تھا کیا
محبت ایک تھی اور ایک بھی ہوتی نہیں تھی
گزرنے میں بہت آسانی رہتی تھی اِدھر سے 
یہ گھر ہوتے تھے لیکن یہ گلی ہوتی نہیں تھی 
دیا پہنچا نہیں تھا آگ پہنچی تھی گھروں تک
پھر ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی
نکل جاتے تھے سر پر بے سر و سامانی لادے
بھری لگتی تھی گٹھڑی اور بھری ہوتی نہیں تھی
ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا
شبِ ہجراں جب اتنی سرسری ہوتی نہیں تھی
بہت تکرار رہتی تھی بھرے گھر میں کسی سے
جو شے درکار ہوتی تھی وہی ہوتی نہیں تھی
اچانک مصـرع جاں سے برآمد ہونے والے 
کہاں ہوتا تھا تُو جب شاعری ہوتی نہیں تھی
کہو تو گفتگو سنواؤں تم کو ان دنوں کی 
ہمارے درمیاں جب بات بھی ہوتی نہیں تھی

شاہین عباس

No comments:

Post a Comment