Wednesday, 29 January 2020

جہاں کے شور سے گھبرا گئے کیا

جہاں کے شور سے گھبرا گئے کیا
مسافر گھر کو واپس آ گئے کیا
نہ تھی اتنی کڑی تازہ مسافت
پرانے ہمسفر یاد آ گئے کیا
یہاں‌کچھ آشنا سی بستیاں تھیں
جزیروں کو سمندر کھا گئے کیا
مِری گردن میں باہیں ڈال دی ہیں
تم اپنے آپ سے اکتا گئے کیا
نہیں آیا مِرا جانِ بہاراں
درختوں پر شگوفے آ گئے کیا
جہاں میلہ لگا ہے قاتلوں کا
فؔراز اس شہر میں تنہا گئے کیا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment