Sunday 12 January 2020

جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے

جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے 
کب کوئی لڑکی من کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے 
آج مگر اک نار کو دیکھا، جانے یہ نار کہاں کی ہے 
مصر کی مورت، چین کی گڑیا، دیوی ہندوستان کی ہے 
مکھ پر روپ سے دھوپ کا عالم بال اندھیری شب کی مثال 
آنکھ نشیلی، بات رسیلی، چال بلا کی بانکی ہے 
انشاؔ جی اسے روک کے پوچھیں تم کو تو مفت ملا ہے حسن 
کس لیے پھر بازارِ وفا میں تم نے یہ جنس گراں کی ہے 
ایک ذرا سا گوشہ دے دو، اپنے پاس جہاں سے دور 
اس بستی میں ہم لوگوں کو حاجت ایک مکاں کی ہے 
اہلِ خرد تادیب کی خاطر پاتھر لے لے آ پہنچے 
جب کبھی ہم نے شہرِ غزل میں دل کی بات بیاں کی ہے 
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں، جوگی بن کر گھوما کون 
قریہ بہ قریہ، صحرا بہ صحرا، خاک یہ کس نے پھانکی ہے 
ہم سے جس کے طور ہوں بابا دیکھو گے دو ایک ہی اور 
کہنے کو تو شہر کراچی بستی دل زدگاں کی ہے 

ابن انشا

آج بنجارے شاعر ابن انشا کی برسی ہے، فاتحہ برائے ابن انشا،

No comments:

Post a Comment