نئے سال کی پہلی نظم
چلو کچھ آج حسابِ زیانِ جاں کر لیں
الم شمار کریں، درد آشکار کریں
گِلے جو دل کی تہوں میں ہیں آبلوں کی طرح
انہیں بھی آج شناسائے نوکِ خار کریں
جو بے وفا ہو اسے بے وفا کہیں کُھل کر
کہاں تلک یہ تکلم زمانہ سازی کے
پسِ کلام ہے جو کچھ ذرا کہیں کُھل کر
خنک خنک سی ہنسی ہنس کے مل رہے ہو کیوں
لہو ہے سرد تو آنکھیں بھی منجمد کر لو
جو دل میں دفن ہے چہروں پہ اشتہار کریں
الم شمار کریں، درد آشکار کریں
تمہارا میرا تعلق بس ایک لفظ کا ہے
لغت کی انت میں سمٹا ہوا فقط ایک لفظ
اِس ایک لفظ میں سچائی ہے زمانوں کی
چلو کہ آج یہی لفظ اختیار کریں
تمام عمر پڑی ہے منافقت کے لیے
اِس ایک لفظ کا دامن نہ داغدار کریں
الم شمار کریں، درد آشکار کریں
چلو کچھ آج حسابِ زیانِ جاں کر لیں
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment