Wednesday, 8 January 2020

بارش اور ہم

بارش اور ہم

بارش تھی، ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام​
تم نے لیا تھا کانپتے ہونٹوں سے میرا نام​
میں نے کہا تھا، آؤ یونہی بھیگتے چلیں​
ان راستوں میں دیر تلک گھومتے رہیں​
میری کمر میں ہاتھ یہ پھولوں سا ڈال کر​
کاندھے پہ میرے رکھے رہو یونہی اپنا سر​
ہاتھوں کو میں کبھی، کبھی بالوں کو چوم لوں​
دیکھو میری طرف تو میں آنکھوں کو چوم لوں​
پانی کے یہ جو پھول ہیں رخ پر کھلے ہوئے​
ان میں دھنک کے رنگ ہیں سارے گھلے ہوئے​
ہونٹ سے ان کو چُنتے رہیں خوشدلی کے ساتھ​
تارے ہمیں تلاش کریں، چاندنی کے ساتھ​
یونہی کسی درخت کے نیچے کھڑے رہیں​
بارش کے دیر بعد بھی لپٹے کھڑے رہیں​
تم نے کہا تھا، آؤ چلیں، رات آ گئی​
دل جس سے ڈر رہا تھا، وہی بات آ گئی​
بیتے سمے کی یاد ہی رستوں میں رہ نہ جائے​
یہ دل کہیں وصال کی بارش میں بہہ نہ جائے​
کچھ دیر ایک چپ سی رہی درمیان میں​
گرہیں سی جیسے پڑنے لگی ہوں زبان میں​
یک دم گِرا تھا پھول کوئی شاخسار سے​
دیکھا تھا تم نے میری طرف اضطرار سے​
بارش میں بھیگتے ہوئے جھونکے ہوا کے تھے​
وہ چند بے گمان سے لمحے، بلا کے تھے​
نشہ سا ایک چاروں طرف پھیلتا گیا​
پھر اس کے بعد میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا​


امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment