انتساب
اس زخمِ جاں کے نام، جو اب تک نہیں بھرا
اس زندہ دل کے نام، جو اب تک نہیں مرا
اس زندگی کے نام، گزارا نہیں جسے
اس قرضِ فن کے نام، اتارا نہیں جسے
اہلِ نظر کے نام، جو جوہر شناس ہیں
ان دوستوں کے نام، جو گوشہ نشین ہیں
ان بے حسوں کے نام، جو بارِ زمین ہیں
ان اہلِ دل کے نام، جو راہوں کی دھول ہیں
ان حوصلوں کے نام، جنہیں دکھ قبول ہیں
اس شعلہ رخ کے نام کہ روشن ہے جس سے رات
ہے ضوفشاں اندھیرے میں، ہر نقطۂ کائنات
اور حسنِ باکمال کی، راعنائیوں کے نام
اور اپنے ذہن و قلب کی، تنہائیوں کے نام
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment