اندھیری شب میں اسی کے اشاروں جیسے ہیں
وہ اس کے نین چمکتے ستاروں جیسے ہیں
بچھڑ کے ہم سے بظاہر وہ مطمئن ہے بہت
پیام اس کے مگر بے قراروں جیسے ہیں
چلو کہ پار لگیں ڈوب کر محبت میں
لبوں پہ لفظ رکے ہیں جو ضبط کے ہاتھوں
نہ روکئے تو یہی آبشاروں جیسے ہیں
کبھی جو صرف دمِ گفتگو کئے اُس نے
تمام حروف وہ ٹھنڈی پھنواروں جیسے ہیں
قتیل آج بھی اس کا بدن ہے سونے کا
وہ جس کے بال بھی چاندی کے تاروں جیسے ہیں
ہم آن بیٹھے ہیں اک ایسی انجمن میں قتیل
کہ اجنبی بھی جہاں اپنے پیاروں جیسے ہیں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment