Wednesday 8 January 2020

اندھیری شب میں اسی کے اشاروں جیسے ہیں

اندھیری شب میں اسی کے اشاروں جیسے ہیں
وہ اس کے نین چمکتے ستاروں جیسے ہیں
بچھڑ کے ہم سے بظاہر وہ مطمئن ہے بہت
پیام اس کے مگر بے قراروں جیسے ہیں
چلو کہ پار لگیں ڈوب کر محبت میں
کہ اس ندی کے بھنور بھی کناروں جیسے ہیں
لبوں پہ لفظ رکے ہیں جو ضبط کے ہاتھوں
نہ روکئے تو یہی آبشاروں جیسے ہیں
کبھی جو صرف دمِ گفتگو کئے اُس نے
تمام حروف وہ ٹھنڈی پھنواروں جیسے ہیں
قتیل آج بھی اس کا بدن ہے سونے کا
وہ جس کے بال بھی چاندی کے تاروں جیسے ہیں
ہم آن بیٹھے ہیں اک ایسی انجمن میں قتیل
کہ اجنبی بھی جہاں اپنے پیاروں جیسے ہیں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment