Saturday, 11 January 2020

کل ہم نے بزم یار میں کیا کیا شراب پی

کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی
اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ
اے خانماں خراب، نہ تنہا شراب پی
تُو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں
تُو ہم سبُو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی
اے دل گرفتۂ غمِ جاناں سبُو اٹھا
اے کشتۂ جفائے زمانہ، شراب پی
دو صورتیں ہیں چارۂ دردِ فراق کی
یا اس کے غم میں ٹوٹ کے رو یا شراب پی
اک مہرباں بزرگ نے یہ مشورہ دیا
دکھ کا کوئی علاج نہیں، جا شراب پی
بادل گرج رہا تھا اُدھر، محتسب اِدھر
پھر جب تلک یہ عقدہ نہ سلجھا، شراب پی
اے تُو کہ تیرے در پہ ہیں رندوں کے جمگھٹے
اک روز اس فقیر کے گھر آ، شراب پی
دو جام ان کے نام بھی اے پیرِ مۓ کدہ
جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی
کل ہم سے اپنا یار خفا ہوگیا فراز
شاید کہ ہم نے حد سے زیادہ شراب پی ​

احمد فراز 

No comments:

Post a Comment