Friday, 10 January 2020

جو آستاں سے تیرے لو لگائے بیٹھے ہیں

جو آستاں سے تیرے لو لگائے بیٹھے ہیں
خدا گواہ وہ دنیا پہ چھائے بیٹھے ہیں
چمک رہی ہیں جبینیں تیرے فقیروں کی
تجلیات کے سہرے سجائے بیٹھے ہیں
خدا کے واسطے اب کھول ان پہ بابِ عطا
جو دیر سے تیری چوکھٹ پہ آئے بیٹھے ہیں
جلائے گی اب کیا چمن میں برقِ فلک
جو آشیانۂ ہستی جلائے بیٹھے ہیں
بڑے بڑوں کے سروں سے اتر رہا ہے خمار
وہ آج خیر سے محفل پہ چھائے بیٹھے ہیں
مجال ہے جو کوئی لب ہلے سرِ محفل
وہ ایک ایک کو آنکھیں دکھائے بیٹھے ہیں
یہ ہم ہیں کہ اپنوں کے دل نہ جیت سکے
وہ تو دشمنوں کو بھی اپنائے بیٹھے ہیں
اجل بھی ہم کو اٹھانے پہ اب نہیں قادر
یہاں ہم آج کسی کے بٹھائے بیٹھے ہیں
وفا کے نام پہ دشمن کا امتحان سہی
کہ دوستوں کو ہم آزمائے بیٹھے ہیں
نصؔیر ہم میں تو اپنوں کی کوئی بات نہیں
کرم ہے ان کا جو اپنا بنائے بیٹھے ہیں

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment