دل ہے بسمل، پڑا تڑپتا ہے
اپنا قاتل، پڑا تڑپتا ہے
اک مقابل طلب، سرِ میداں
بے مقابل، پڑا تڑپتا ہے
راہِ منزل میں تھا جو رقص کناں
بس تڑپنے کی تھی ہوس جس کو
اب بمشکل، پڑا تڑپتا ہے
کچھ تو احساس کر کہ تیرے حضور
کیسا قابل، پڑا تڑپتا ہے
میرِ محفل کا طور ہے بے طور
بیچ محفل، پڑا تڑپتا ہے
نہ تو کوئی وصال ہے نہ فراق
بس میاں، دل پڑا تڑپتا ہے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment