Friday, 10 January 2020

ہے مری ذات اک زیاں کی دکاں

بے معنی

ہے مِری ذات اک زیاں کی دکاں
مجھ کو اپنا حساب کیا معلوم
جب مجھے بھی نہیں کوئی احساس
تم کو میرا عذاب کیا معلوم
ہر کسی سے بچھڑ گیا ہوں میں
کون دل میں میرا ملال رکھے
شہر ہستی کا اجنبی ہوں میں
کون آخر مِرا خیال رکھے
رائیگانی ہے زندگی میری
میں تو خود میں بھی رائیگاں ہی گیا
بے گمانی سی بے گمانی ہے
مجھ سے تو خود میرا گماں ہی گیا
کوئی بھی مجھ کو آسرا نہ ملا
میں بھٹکتا رہا ہوں شہروں میں
زندگی تشنگی کا دریا ہے
ہے فقط گرد دل کی لہروں میں
وصل کے سلسلے تو کیا اب تو
ہجر کے سلسلے ہیں بے معنی
کوئی رشتہ ہی جب کسی سے نہیں
دل کے سارے گلے ہیں بے معنی
روز و شب اب یونہی گزرتے ہیں
کوئی قصہ ہو جان و جاناں کا
کربِ بے ماجرائی سہتا ہوں
کچھ تو ہو ماجرا دل و جاں کا
ہر نفس ہے کسی مفر کی تلاش
مجھ کو اپنے حصار میں لے لو
میرا اب خود پہ اختیار نہیں
تم مجھے اختیار میں لے لو
میرے اندر بھی دل کے در وا ہوں
یعنی میرے بھی کوئی معنی ہوں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment