نہ تصاویر، نہ تزئین سے بن سکتی تھی
یہ غزل اچھی، مضامین سے بن سکتی تھی
سات کے سات بھرے رنگ تِری آنکھوں میں
ورنہ تصویر تو دو تین سے بن سکتی تھی
تم نے مانگی ہی نہیں ساتھ دعائیں میرے
تم نے بدلا ہے جو منظر کو بہت عجلت میں
یہ کہانی تو اسی سین سے بن سکتی تھی
دشمنا! تیری عداوت سے مجھے فرق نہیں
پر لڑائی مِری توہین سے بن سکتی تھی
مذہبِ عشق میں رُتبے نہیں دیکھے جاتے
ہم فقیروں کی اسی دِین سے بن سکتی تھی
چار دیواری اٹھانے کو تھی ہمت درکار
چھت کا کیا ہے وہ کسی ٹِین سے بن سکتی تھی
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment