Tuesday, 14 January 2020

شیروں کو آزادی ہے

آزادی

شیروں کو آزادی ہے آزادی کے پابند رہیں‌
جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں کھائیں‌ پییں آنند رہیں‌
شاہیں کو آزادی ہے، آزادی سے پرواز کرے
ننھی منی چڑیوں پر جب چاہے مشقِ ناز کرے
سانپوں کو آزادی ہے ہر بستے گھر میں بسنے کی
ان کے سر میں زہر بھی ہے اور عادت بھی ہے ڈسنے کی
پانی میں آزادی ہے گھڑیالوں اور نہنگوں کو
جیسے چاہیں پالیں پوسیں اپنی تند امنگوں کو
انسان نے بھی شوخی سیکھی وحشت کے ان رنگوں سے
شیروں، سانپوں، شاہینوں‌، گھڑیالوں اور نہنگوں سے
انسان بھی کچھ شیر ہیں، باقی بھیڑوں ‌کی آبادی ہے
بھیڑیں سب پابند ہیں، لیکن شیروں کو آزادی ہے
شیر کے آگے بھیڑیں کیا اک من بھاتا کھاجا ہے
باقی ساری دنیا پرجا، شیر اکیلا راجا ہے
بھیڑیں‌ لا تعداد ‌ہیں لیکن سب کو جان کے لالے ہیں
ان کو یہ تعلیم ملی ہے، بھیڑیے طاقت والے ہیں
ماس بھی کھائیں‌ کھال بھی نوچیں ہر دم لا گو جانوں کے
بھیڑیں کاٹیں دورِ غلامی بَل پر گَلہ بانوں کے
بھیڑیوں‌ سے گویا قائم امن ہے اس آبادی کا
بھیڑیں جب تک شیر نہ بن لیں نام نہ لیں ‌آزادی کا
جب تک ایسے جانوروں کا ڈر دنیا پر غالب ہے
پہلے مجھ سے بات کرے جو آزادی کا طالب ہے

حفیظ جالندھری

آج 14 جنوری 2020 حفیظ جالندھری کا 120 واں یوم پیدائش ہے

No comments:

Post a Comment