Friday, 10 January 2020

رہنے لگی وہ زلف گرہ گیر سامنے

رہنے لگی وہ زلفِ گرہ گیر سامنے
ہر وقت اب تو ہے یہی زنجیر سامنے
آتے ہیں خیر سے وہ نظر اب کبھی کبھی
آنے لگی ہے خواب کی تعبیر سامنے
ہو جائے گا محاسبہ دشمن کا خود بخود
آ جائیں گے فریب کے سب تیر سامنے
اے دل، ذرا سنبھل کے اٹھانا ادھر قدم
وہ دیکھ، وہ ہے زلف کی زنجیر سامنے
مبنی منافقت پہ ہے یاروں کا یہ چلن
تحقیر میری بعد میں، توقیر سامنے
تدبیر سے بدل نہیں سکتے مقدارت
ہو گا وہی جو لائے گی تقدیر سامنے
دیوانہ تو بہار میں صحرا کو چل دیا
ٹوٹی پڑی ہوئی ہے وہ زنجیر سامنے
کیا لکھ دیا ہے میں نے کہ تم ہو گئے ہو خفا
لاؤ تو اک ذرا مِری تحریر سامنے
ہنس کر نصیر سے بھی تو کچھ گفتگو کریں
بیٹھا ہوا ہے آپ کا دل گیر سامنے

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment