ستم پر شرطِ خاموشی بھی اس نے ناگہاں رکھ دی
کہ اک تلوار🗡اپنے اور میرے درمیاں رکھ دی
یہ پوچھا تھا کہ مجھ سے جنسِ دل لے کر کہاں رکھ دی
بس اتنی بات پر ہی کاٹ کر اس نے زباں رکھ دی
پتا چلتا نہیں، اور آگ لگ جاتی ہے تن من میں
زمانہ کیا کہے گا؟ آپ کو اس بدگمانی پر
میری تصویر بھی دیکھی تو ہو کر بدگماں رکھ دی
میرے حرفِ تمنا پر چڑھائے حاشیے کیا کیا
ذرا سی بات تھی، تم نے بنا کر داستاں رکھ دی
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment