Friday 17 January 2020

اتنی آوازیں نہیں دنیا میں جتنا شور ہے

اس گلی میں کچھ نہیں، بس گھٹتا بڑھتا شور ہے 
اک مکیں کی خامشی ہے، اک مکاں کا شور ہے 
شامِ شور انگیز! یہ سب کیا ہے بے حد و حساب 
اتنی آوازیں نہیں، دنیا میں جتنا شور ہے 
آنگن آنگن تکیہ برداروں کو اب کیا کیا بتائیں 
آنکھ میں کیا خواب ہے اور خواب میں کیا شور ہے 
خالی دل پھر خالی دل ہے، خالی گھر کی بھی نہ پوچھ 
اچھے خاصے لوگ ہیں، اور اچھا خاصا شور ہے 
نقل کرتی ہے مِرے چلنے میں ویرانی مِری 
یہ جو میرے شورِ پا سے ملتا جلتا شور ہے 
بات قابو میں نہیں، آفات قابو میں نہیں 
اک پرانی گونج ہے مجھ میں، پرانا شور ہے 
دونوں میں سے ایک چپ ہو جائے تو اندازہ ہو 
تیرے میرے شور میں سے کس کا کتنا شور ہے

شاہین عباس

No comments:

Post a Comment