کم فہم ہیں تو کم ہیں پریشانیوں میں ہم
دانائیوں سے اچھے ہیں نادانیوں میں ہم
شاید رقیب ڈوب مریں بحرِ شرم میں
ڈوبیں گے موجِ اشک کی طغیانیوں میں ہم
غیروں کے ساتھ آپ بھی اٹھتے ہیں بزم سے
جن جن کے تُو مزار سے گزرا وہ جی اٹھے
باقی رہے ہیں ایک تِرے فانیوں میں ہم
دیکھا جو زلفِ یار کو، تسکین ہو گئی
یک چند مضطرب تھے پریشانیوں میں ہم
آنکھوں سے یوں اشارۂ دشمن نہ دیکھتے
ہوتے نہ اس قدر جو نگہبانیوں میں ہم
پیرِ مغاں کے فیضِ توجہ سے شیفتہ
اکثر شراب پیتے ہیں روحانیوں میں ہم
مصطفیٰ خان شیفتہ
No comments:
Post a Comment