Friday 24 January 2020

گیت لکھے بھی تو ایسے کہ سنائے نہ گئے

گیت لکھے بھی تو ایسے کہ سنائے نہ گئے
زخم لفظوں میں یوں اترے کہ دکھائے نہ گئے
تیرے کچھ خواب جنازے ہیں میری آنکھوں میں
وہ جنازے جو کبھی گھر سے اٹھائے نہ گئے
ہم نے قسمیں بھی اٹھا دیکھیں مگر بھول گئے
ہم نے وعدے بھی کیے اور نبھائے نہ گئے
شہر میں فتح کی رونق تھی کسی دشمن پر
ہم سے لیکن در و دیوار سجائے نہ گئے
کیا بس اتنی ہی محبت تھی کہ بولے نہ چلے
کیا بس اتنا ہی تعلق تھا کہ آئے نہ گئے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment