خودی کو آ گئی ہنسی امید کے سوال پر
اندھیرے تلملا اٹھے چراغ کی مجال پر
یہ چاہتوں کا درد ہے یہ قربتوں کا حشر ہے
جو دھوپ چھپ کے روئی آفتاب کے زوال پر
یہ جان کر کہ چاند میرے گھر میں جگمگائے گا
نظر میں زندگی کی پھول معتبر نہ ہو سکے
خزاں کو اعتراض تھا بہار سے وصال پر
خبر یہ دیر سے اڑی کہ موت سے مفر نہیں
پرند جب اتر چکے شکاریوں کے جال پر
زمانہ جس کی زندگی میں قدر کچھ نہ کر سکا
اب آسمان رو رہا ہے اس کے انتقال پر
کہاں وہ مینا چاہتوں کی شدتوں کا سلسلہ
کہاں یہ بے نیازیاں ہمارے عرضِ حال پر
مینا نقوی
No comments:
Post a Comment