کچھ فاصلے پہ ٹھہرا ہوا ہوں چٹان سے
اِک بت خریدنا ہے، خدا کی دُکان سے
یہ کائنات ہاتھ میں آنی تو ہے نہيں
پھر کس لیے لپٹتا پِھروں آسمان سے
مہمان بن کے آیا ہے، مہمان بن کے رہ
دریا مِرے پڑوس میں بہتے تو ہیں مگر
پیتا ہوں لے کے آج بھی پانی دکان سے
پہلے تو اس نے شعر سنے مجھ سے میر کے
پھر اس کو عشق ہو گیا اردو زبان سے
میرے علاوہ ایک بھی پاگل نہيں ہوا
پھر کس طرح سے بنتی مِری خاندان سے
اک عمر بیٹھ کر میں یہی دیکھتا رہا
یہ کون دیکھتا ہے مجھے آسمان سے
عمران عامی
No comments:
Post a Comment