ایسے نہ تھے ہم اہلِ دل، اتنے کہاں خراب تھے
ہم بھی کسی کی آس تھے، ہم بھی کسی کا خواب تھے
اب جو ہوئے ہیں خیر سے، راندۂ خلقِ شہر ہم
چہرۂ شب کا نور تھے، شیشۂ فن کی آب تھے
دل پہ کسی کے نقش تھے صورتِ حرفِ آرزو
ایسی تھیں وہ رفاقتیں، جیسے ہم اپنے آپ میں
رنگِ شعاع مہر تھے، ریزۂ آفتاب تھے
وعدوں کا ایک شہر تھا جس سے گزر رہے تھے ہم
آنکھیں کھلیں تو دور تک ہر سو وہی سراب تھے
دل سا چراغ کیا بجھا، آنکھیں دھواں دھواں ہوئیں
کہنے کو اپنے آس پاس کتنے ہی ماہتاب تھے
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment