Thursday, 9 January 2020

زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا

زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا
کیا کیا ہم نے کشٹ کمائے کہاں کہاں نروان لیا
نقش دیئے تِری آشاؤں کو عکس دیئے تِرے سپنوں کو
لیکن دیکھ ہماری حالت وقت نے کیا تاوان لیا
اشکوں میں ہم گوندھ چکے تھے اس کے لمس کی خوشبو کو
موم کے پھول بنانے بیٹھے لیکن دھوپ نے آن لیا
برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی
کچھ تو گردِ سفر سے بھانپا، کچھ آنکھوں سے جان لیا
آنکھ پہ ہات دھرے پھرتے تھے لیکن شہر کے لوگوں نے
اس کی باتیں چھیڑ کے ہم کو لہجے سے پہچان لیا
سورج سورج کھیل رہے تھے ساؔجد ہم کل اس کے ساتھ
اک اک قوسِ قزح سے گزرے، اک اک بادل چھان لیا

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment