جو ہم نے دیکھ رکھے ہیں وہ خواب رہنے دے
ہماری آنکھ کے آگے سراب رہنے دے
آ ہوش اپنے ٹھکانے پہ رکھ کے ہم کو دکھا
لے شعر سن تُو ہمارے، شراب رہنے دے
سمیٹ لے وہ منافع جو تیرا بنتا ہے
تِرے حضور ہی جچتا ہے گشتِ بادِ صبا
ہمیں نواز دے صر صر خراب رہنے دے
ہمارا گھٹتا ہے دَم اس غلیظ جنت میں
ہمیں عزیز ہیں اپنے عذاب رہنے دے
تُو لاکھ ہو گا کوئی ابرِ بے بہا، لیکن
ہمارے پاس ہے کورا جواب رہنے دے
ارے یوں نوچ نہ عاؔبی پلید دستاریں
جو آنجناب ہیں ان کو جناب رہنے دے
عابی مکھنوی
No comments:
Post a Comment