Thursday, 9 January 2020

یقین ڈوب گیا تو گماں سے کیا ہو گا

یقین ڈوب گیا تو گماں سے کیا ہو گا
زمیں سے جو نہ ہوا، آسماں سے کیا ہو گا
مزا تو جب ہے کہ نظمِ چمن پہ چھا جاؤ
شکایتِ روشِ باغباں سے کیا ہو گا
بہار، خونِ جگر سے اُگے تو بات بنے
نوائے شکوۂ جورِ خزاں سے کیا ہو گا
جو رِند ہو تو اٹھا لو پیالہ خود بڑھ کر
اس انتظارِ عطائے مغاں سے کیا ہو گا
غرورِ قلعہ شکن، وقت کا تقاضا ہے
سجودِ بارگہِ خسرواں سے کیا ہو گا
سرِ یزید اتارے بغیر اے یارو
فقط حسین پہ آہ و فغاں سے کیا ہو گا
جو مرد ہو تو چنین و چناں کو زیر کرو
اس احتجاجِ چنین و چناں سے کیا ہو گا
مجاہداتِ زمان و مکاں میں در آؤ
مذاکراتِ زمان و مکاں سے کیا ہو گا
ہوا کے دوش کو بارود کی ضرورت ہے
شمیمِ گیسوئے عنبر فشاں سے کیا ہو گا
جو سورما ہو تو چنگیز خاں سے ٹکر لو
فقط مذمتِ چنگیز خاں سے کیا ہو گا
سنو سنو کہ یہ گردوں سے آ رہی ہے صدا
کہ ذوالفقار سے بولو، زباں سے کیا ہو گا

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment