کوشش کے باوجود بھی ساکن نہیں رہا
کچھ دن میں سامنے رہا کچھ دن نہیں رہا
پہلے یہ ربط میری ضرورت بناؤ گے
اور پھر کہو گے رابطہ ممکن نہیں رہا
ہم ایک واردات سے تھوڑے ہی دور ہیں
سکول کے دنوں سے مجھے جانتے ہو تم
میں آج تک سوال کیے بِن نہیں رہا
اک رات اس نے چند ستارے بجھا دئیے
اس کو لگا تھا کوئی انہیں گِن نہیں رہا
خرم آفاق
No comments:
Post a Comment