Sunday, 5 January 2020

بادہ نیم رس

بادۂ نِیم رس

کس قیامت کا تبسم ہے تِرے ہونٹوں پر
استعاروں میں بھٹکتے ہیں خیالات مِرے
میں کہ ہر سانس کو اک شعر بنا سکتا ہوں
نظم ہونے کو پریشان ہیں جذبات مِرے
٭
آنکھ جمتی نہیں لہراتے ہوئے قدموں پر
کسی نغمے کا تلاطم ہے کہ رفتار تِری
رقص انگڑائیاں لیتا ہے تِری بانہوں میں
حیرت آثار ہے کیوں چشم فسوں بار تِری
٭
بے خیالی میں نشیبوں سے گزرنے والی
فرش ہموار سے الجھیں گے قدم رہ رہ کر
لب تھرک جائیں گے الفاظ کی موسیقی پر
اپنی رفتار سے الجھیں گے قدم رہ رہ کر
٭
دیکھتے دیکھتے بھرپور جوانی کی حیا
تیری بے باک نگاہوں میں سما جائے گی
پردۂ چشم سے نکلیں گی جھجک کر نظریں
زلف ڈرتی ہوئی رخسار پہ لہرائے گی
٭
جسم ہر گام پہ لغزش کا اشارہ پا کر
جام لبریز کی مانند چھلک جائے گا
ریشمی ریشمی زلفوں سے پھسلتا آنچل
کبھی شانوں سے کبھی سر سے ڈھلک جائے گا

سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment