حبس بہت ہے
اشکوں سے یوں آنچل گیلے کر کے ہم
دل پر کب تک ہوا کریں
باغ کے در پر قُفل پڑا ہے
اور خوشبو کے ہاتھ بندھے ہیں
لفظ سے معنی بچھڑ چکے ہیں
لوگ پرانے اجڑ چکے ہیں
نابینا قانون وطن میں جاری ہے
آنکھیں رکھنا
جرمِ قبیح ہے
قابلِ دست اندازئ حاکمِ اعلیٰ ہے
حبس بہت ہے
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment