جو چاہتا تھا اسے میں نے وہ ملال دیا
بٹھا کے دِل میں اسے دِل سے پھر نکال دیا
کہاں رہا ہوں میں محرومِ لذتِ آزاد
کسی نے ہجر، کسی نے مجھے وصال دیا
مجھے یقین نہیں تھا نکل سکے گا کبھی
یہ میں نے کعبۂ دِل سے وہ بت نکال دیا
وہ میری دشت نوردی کو جانے کیا سمجھا
فضا میں دشت کو میں نے یونہی اچھال دیا
وہ مجھ سے حل نہ ہوا جب تو اس کو چھوڑ دیا
خود اپنی ذات سے مشکل مجھے سوال دیا
کتاب عشق می ںیہ باب ہے انوکھا سا
جدائیوں نے مجھے نشہ وصال دیا
خدا نے تم کو عطا کیں یہ نعمتیں کیسی
جمال رکھا طبیعت میں اور جلال دیا
عطاءالحق قاسمی
No comments:
Post a Comment