جذب آنکھوں میں اگر خواب نہیں ہونے کے
معتبر عشق کے آداب نہیں ہونے کے
ہم نے پلکوں میں چھپا رکھے ہیں اپنے آنسو
رائیگاں گوہرِ نایاب نہیں ہونے کے
بے حسی لے گئی جذبات کی ساری خوشبو
اس سے ملنے کی تمنا کبھی خواہش اس کی
یہ سفینے کبھی غرقاب نہیں ہونے کے
ٹمٹماتے ہیں ابھی یادوں کے بوسیدہ چراغ
کیا یہ جگنو کبھی مہتاب نہیں ہونے کے
تُو سمندر ہے مگر پیاس سے تڑپے ہم لوگ
تلخ پانی سے تو سیراب نہیں ہونے کے
پھر سرِ شام سے ہے یادوں کی دستک میناؔ
آج پھر نیند کے اسباب نہیں ہونے کے
مینا نقوی
No comments:
Post a Comment