Tuesday, 7 January 2020

جذب آنکھوں میں اگر خواب نہیں ہونے کے

جذب آنکھوں میں اگر خواب نہیں ہونے کے
معتبر عشق کے آداب نہیں ہونے کے
ہم نے پلکوں میں چھپا رکھے ہیں اپنے آنسو
رائیگاں گوہرِ نایاب نہیں ہونے کے
بے حسی لے گئی جذبات کی ساری خوشبو
اب یہ غنچے کبھی شاداب نہیں ہونے کے
اس سے ملنے کی تمنا کبھی خواہش اس کی
یہ سفینے کبھی غرقاب نہیں ہونے کے
ٹمٹماتے ہیں ابھی یادوں کے بوسیدہ چراغ
کیا یہ جگنو کبھی مہتاب نہیں ہونے کے
تُو سمندر ہے مگر پیاس سے تڑپے ہم لوگ
تلخ پانی سے تو سیراب نہیں ہونے کے
پھر سرِ شام سے ہے یادوں کی دستک میناؔ
آج پھر نیند کے اسباب نہیں ہونے کے

مینا نقوی

No comments:

Post a Comment