Wednesday 1 January 2020

وقت کو گزرنا ہے

وقت کو گزرنا ہے

موت کی حقیقت اور
زندگی کے سپنے کی
بحث گو پرانی ہے
پھر بھی اک کہانی ہے
اور کہانیاں بھی تو
وقت سے عبارت ہیں
لاکھ روکنا چاہیں
وقت کو گزرنا ہے
ہنستے بستے شہروں کو
ایک دن اجڑنا ہے
راحتیں ہوائیں ہیں
چاہتیں صدائیں ہیں
کیا ہوائیں بھی
دسترس میں رہتی ہیں
کیا کبھی صدائیں بھی
کچھ پلٹ کے کہتی ہیں
اور پیار کا دکھ بھی
آنسوؤں کے دریا کو
ایک دن اترنا ہے
خواہشوں کو مرنا ہے
وقت کو گزرنا ہے
وقت کو گزرنا ہے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment