Thursday, 29 July 2021

بھیڑ میں ایک شخص کو سب ہی سے ہٹ کے دیکھا تھا

 بھیڑ میں ایک شخص کو، سب ہی سے ہٹ کے دیکھا تھا

دور وہ جا چکا تھا جب، میں نے پلٹ کے دیکھا تھا

آنکھ میں اشک ٹھہرا تھا، لب پہ ہنسی بھی دکھتی تھی

ایسی بھی کشمکش نے تو، دل سے لپٹ کے دیکھا تھا

چہرے پہ چہرہ ہے سجا، کس پہ کریں بھروسہ پھر

چہرہ کُھلی کتاب تھی، میں نے بھی رٹ کے دیکھا تھا

کینہ، حسد، دروغ کے تیر، کمان، توپ تھے

سچ کے محاذِ جنگ پر تنہا بھی ڈٹ کے دیکھا تھا

پیار کو بانٹنے سے، اور پیار مزید ملتا ہے

سوچ کے بات اک یہی، رشتوں میں بٹ کے دیکھا تھا

بیٹھے تھے آستین میں بن کے جو میرے مہرباں

ایسے ہی دوستوں سے اک روز نمٹ کے دیکھا تھا

تنگ تھے شورِ زیست سے، قہقہے اور بزم سے

خود کو ہی اپنی ذات تک، خود ہی سمٹ کے دیکھا تھا

کہتے گناہ گار تھے، روح تھی اک فقیر کی

اس کو جہاں کی آنکھ سے، خود میں نے کٹ کےدیکھا تھا

راہِ طرب سبیلہ بس، چند قدم کے بعد ہے

میں نے کتابِ زیست کا، صفحہ الٹ کے دیکھا تھا


سبیلہ انعام صدیقی

No comments:

Post a Comment