Thursday, 29 July 2021

کبھی ساحل تو کبھی سیلِ خطر ٹھہرے گی

 کبھی ساحل تو کبھی سیلِ خطر ٹھہرے گی

بحرِ ہستی میں اگر موجِ سفر ٹھہرے گی

ورطۂ شب سے نکل آئی اگر کشتئ صبح

ساحلِ نور پہ ٹھہرے گی اگر ٹھہرے گی

سینۂ حسن میں پوشیدہ ہے جو آگ ابھی

تیشۂ عشق سے گلرنگ سحر ٹھہرے گی

کشتئ جاں کو سلامت نہ اگر لے کے گئی

بے کلی دل کے سمندر کا بھنور ٹھہرے گی

ہم سرِ شام چراغوں میں تجھے دیکھیں گے

اب کسی گل پہ نہ تارے پہ نظر ٹھہرے گی

دل کی فریاد کو لازم ہے خموشی ہی غزل

ورنہ اس دہر میں یہ کارِ ہنر ٹھہرے گی


سارا غزل

No comments:

Post a Comment