Saturday, 31 July 2021

کچھ محبت کچھ گلہ آثار بارش ہو رہی ہے

 کچھ محبت کچھ گلہ آثار بارش ہو رہی ہے

دو بزرگوں میں دمِ گفتار بارش ہو رہی ہے

دوست پہلی نظم میں بھی صاف پانی بہہ رہا تھا

اس غزل میں اور تازہ کار بارش ہو رہی ہے

پہلے تو سب اہلِ خانہ گھر میں بیٹھے رو رہے تھے

آج لگتا ہے پسِ دیوار بارش ہو رہی ہے

شہر کی اونچی عمارت میں بھی گریہ چل رہا ہے

آسماں سے غیر جانب دار بارش ہو رہی ہے

نیکریں پہنے ہوئے بچوں کی حالت دیدنی ہے

جیسے اس گاؤں میں پہلی بار بارش ہو رہی ہے

پڑتے جاتے ہیں کئی سوراخ کالی چھتریوں میں

تیر گرتے ہیں کہ خنجر وار بارش ہو رہی ہے

ابرِ نمدیدہ نے چھت پر اک سماں باندھا ہوا ہے

شام ہی سے ایک موسیقار بارش ہو رہی ہے


عاطف کمال رانا

No comments:

Post a Comment