پڑاؤ
عمر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں
بخت بھر میں تِری مسکراہٹ کی نم ٹھنڈی چھاؤں میں ٹھہرا
تو سمجھا یہاں سے کہیں اور جانا نہیں
سانس سیدھی نہ کی تھی، پسینہ سُکھایا نہ تھا
جب قضا نے مِرے بائیں شانے کو
چابک کے نشتر سے چھیلا
میں تیزی سے اٹھا اور اک بار پھر
دوڑتی بھیڑ میں جا مِلا
عمر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں
سلطان ناصر
No comments:
Post a Comment