Saturday, 31 July 2021

تعلقات بوجھ نہیں ہوتے

 تعلقات بوجھ نہیں ہوتے


تمازت بھرے سورج کی راکھ دیکھ کر

جب پالتی مارے بیٹھو، سرمئی شام کے سنگِ سرد چبوترے پہ

جہاں اُگا ہے بوڑھا برگد

جس کی چھاؤں میں تم اکثر آوارگی لیے بیٹھتے تھے

نظرِ عمیق سے تکنا برگدی شاخچوں کو 

جو وقت کے دوش پہ

گُھن کھا کر سفید ہو گئے

سوچ کی زنبیل کھنگالو

اس شہرِ جاوداں کی باشعور میں بِتائے گئے

بُھولے بِسرے وہ دن

جن کی رنگینیوں میں اب تمہارا عکس آف وائٹ دِکھائی پڑتا ہے

جہاں گشت کرتے

تم نے عمرِ ناتمام کے بِسرام کی چاہ کی

اپنی چاہ کی طلب تمہارے اندر لاٹیں جگانے لگی

تم نے رنگینیوں کو چھوڑا

بَن باس کا انتخاب کرتے ہوئے

اور کھوجتے رہے کِنتُو پرنتُو کا باب

جس سے دشت کے ٹیلے اکثر

بے زار ہیں تمہاری طرح

پھر کھوج سے نِراشا ہو کر، تم نے جاننا چاہی

جیر کی مقدس کَتھا

جہاں غلاظتوں کے انبار میں بھی پاکیزگی کی پرتیں تھیں

کُوچ کے وقت تم نے یاد کیے

زرقا کے شفایاب بوسے جن کی تمہیں شدید چاہ تھی پر

تمہیں ان سے محروم رکھا گیا

بے وُقعت دشت، دلخراش رنگینیوں سے تنگ آ کر

تم تلاشنے لگے اپنے لیے غار نما سکون دہ گھر، تشنگی مٹانے کو

شیریں حوض

زندگی کو ڈگر پر دھکیلتے ہوئے سارے سوالوں کے جواب نہ ملنے پر

تم شہر کو واپس پلٹے

جہاں اب تمہیں کوئی نہیں پہچانتا

بالآخر تم نے جان ہی لیا کہ؛ 

چاہے یا ان چاہے تعلقات کبھی بھی بوجھ نہیں ہوتے


علی زیوف

No comments:

Post a Comment