Thursday, 29 July 2021

گھر مرا تھا نہ وہاں کوئی گلی میری تھی

 گھر مِرا تھا، نہ وہاں کوئی گلی میری تھی

اس جگہ صرف غریب الوطنی میری تھی

یونہی کرتا تھا میں لوگوں سے گِلہ دوری کا

مجھ میں اوروں سے زیادہ تو کمی میری تھی

جتنے چہرے مجھے یاد آئے، اسی کے آئے

وہ جو اک شکل مجھے بھول گئی، میری تھی

باغ میں پھول کے موسم کا بھی اک موسم ہے

میں ہی یہ بات نہ سمجھا غلطی میری تھی

آج احساس ہوا ہے کہ جدا ہیں ہم لوگ

ایک تصویر ملی ہے جو تِری میری تھی

بن گیا حال اب اس کا جو مِرا ماضی تھا

ہو گئی اس کی وہ حالت جو کبھی میری تھی


عابد ملک

No comments:

Post a Comment