وقت آسیب ہے
عرصۂ خاک پر کون ہے
جو طلسمِ نمُو سے گزرتے ہوئے
رائیگانی کے طوفان کو روک لے
کون ہے؟ جو
طلب اور تمناؤں کی
نا رسی کی اذیت سے بچ کر چلے
کیوں ازل سے
مقدر میں لکھ دی گئی ہے
یہ بے چارگی
مہر و مہ اور ستاروں سے مانگی ہوئی
عارضی روشنی
مستقل تیرگی
ہم دعاؤں کے رحم و کرم پر
شب و روز کی قید میں
سانس لینے پہ مجبور ہیں
کوئی چارہ نہیں
کچھ ہمارا نہیں
ایک بھی زندگی کے سفر میں سہارا نہیں
عرصۂ خاک پر
اک غلامی کی زنجیر ہے
بس یہی اپنی تقدیر ہے
عرصۂ خاک پر
ایسا سفّاک ہے حکمراں
جس طرف چاہے وہ موڑ دے
اور کسی موڑ پر بھی
ہمیں توڑ دے
اپنی بے انت طاقت کے نشے میں بد مست ہے
اور وہ حکمراں وقت ہے
وقت آسیب ہے
جو ہماری نگاھوں سے اوجھل ہے اور
اس پہ منتر کوئی اور کوئی دعا
سب کے سب بے اثر
ایک تیرے سوا اور کس سے کہیں
کر ہماری مدد
اے ہمارے خدا
مالکِ بحر و بر
احمد امتیاز
No comments:
Post a Comment