اس شہرِ سنگِ سخت سے گھبرا گیا ہوں میں
جنگل کی خوشبوؤں کی طرف جا رہا ہوں میں
منظر کو دیکھ دیکھ کے آنکھیں چلی گئیں
ہاتھوں سے آج اپنا بدن ڈھونڈھتا ہوں میں
چلا رہا ہے کوئی میرے لمس کے لیے
اندھیاری وادیوں سے نکل بھاگتا ہوں میں
قاتل کے ہاتھ میں کوئی تلوار ہے نہ تیغ
وہ مسکرا رہا ہے،۔ مَرا جا رہا ہوں میں
مجھ کو وہ میرے دل کے عِوض دے سکیں گے کیا
مامؔون دنیا والوں سے کیا مانگتا ہوں میں
خلیل مامون
No comments:
Post a Comment