Friday, 30 July 2021

آخری شام کا رنگ کچھ مدھم سا ہے

 آخری ریہرسل کا سکرپٹ


آخری شام کا رنگ کچھ مدھم سا ہے

میرے گٹار میں جان نہیں آ رہی

میں اب وہی پرانا نغمہ

اور زیادہ دیر تک نہیں گنگنا سکتا

جس میں گالیوں کا رس نچوڑا گیا ہے

میں اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کو

ایک کاغذ پر منتقل کرنے کے بعد

اس پہ پیشاب کرنا چاہتا ہوں

میں آخری سیٹ کا مسافر ہوں

کیا ہوا جو میں دروازے سے دور ہوں

ایمرجنسی کا دروازہ تو بغل میں ہے

میں آخری وصیت بھی جلا دوں گا

مجھے بعد میں بھی

کسی کی مدد نہیں لینی

کیا یہ بات اتنی مشکل ہے

جو کسی کو سمجھ میں نہ آئے

میں سب سے الگ تھا

الگ مروں تو بھی کیا فرق پڑتا ہے

میری حالت کم سے کم

اس شخص سے تو بدتر نہیں

جو اپنی بیوی کو طلاق دے کر

نیند کی گولیاں لے کر سو رہا ہے

میں بھی تو اب سونا چاہتا ہوں

میں نے سوئے ہوئے خدا کو کہہ دیا ہے

مجھے سونے کے بعد وہ نہیں جگائے

میں پہلے ہی بہت جاگ چکا ہوں


صفی سرحدی

No comments:

Post a Comment