چھوٹی ہی سہی بات کی تاثیر تو دیکھو
تھوڑا سا مگر زہر بجھا تیر تو دیکھو
پل بھر میں بکھر جائیں گے مٹی کے گھروندے
بچوں کی مگر حسرتِ تعمیر تو دیکھو
کس کس کے تعاقب میں بھٹکتی رہی آنکھیں
ٹوٹے ہوئے اک خواب کی تعبیر تو دیکھو
لوٹ آئیں گے پھر گھر کی طرف شام کو پنچھی
پیروں سے لپٹتی ہوئی زنجیر تو دیکھو
نکلی جو بھنور سے تو مسافر تھے ندارد
ٹوٹی ہوئی اس ناؤ کی تقدیر تو دیکھو
اقبال انجم
No comments:
Post a Comment