کچھ عورتیں جو مارچ میں نہیں آ سکیں
وہ اک ہاتھ میں اپنا بچہ اٹھائے
تو دُوجی ہتھیلی پہ عصمت دھرے
یہی کُل اثاثہ لیے
ایک پارۂ نان و نمک کے عوض بیچنے کو کھڑی ہے
کہیں پاس ہی سے اک آواز آتی ہے
اس وقت دن ہے
ابھی گاہک آرام کرتے ہیں یا کام
دھندلکوں میں آئیں گے جب رات ہو گی
اک عورت کی ڈوبی ہوئی غم میں سسکاری ابھری
مالک
اندھیرا اُترنے میں کیوں دیر ہے
کہ میں دوپہر سے کھڑی ہوں
بہت عورتیں ہیں
تو کب جا کے بِک پائے گا
مِرا مال، میری متاع
تو کیا اور ایک فاقہ میں سہہ پاؤں گی
یا نگل جائے گا بھوک کا درد مجھ کو
یہ بچہ بلکتے بلکتے جو سونے لگا ہے
یہ بچ پائے گا؟
نہیں، وہ سب روحیں سسکِیں
نہیں، وہ سب عورتیں چُپ رہیں
لرزنے لگیں
نہیں، نہیں
ہوا بین سے بھر گئی
احمد مبارک
No comments:
Post a Comment