Friday 30 July 2021

‏کیا تم کھل کر ہنس سکتے ہو

 ‏کیا تم ایسا کر سکتے ہو


‏کیا تم کُھل کر ہنس سکتے ہو

‏ایسے جیسے ان دیکھے جنگل کی ان دیکھی گھاٹی میں

‏پھول کِھلے اور کِھلتا جائے

‏اپنی خوشبو سے سرمست اور اپنے آپ سے بھرا ہوا

‏کیا تم نیر بہا سکتے ہو

‏ایسے جیسے بھادوں برکھا چھم چھم برسے، جل تھل کر دے

‏سُوکھے آنگن آن بھگوئے

‏لمبے لمبے سست دِنوں میں ہلچل کر دے

‏کیا تم پہر دو پہر کبھی چُپ رہ سکتے ہو

‏اپنے آپ کو خالی کر کے شانت سمے میں بہہ سکتے ہو

‏ایسے جیسے سیپی اپنے اندر موتی رکھتی ہے

‏اور کبھی کبھی خالی ہو جاتی ہے کہ نئے امکان تراشے

‏کیا تم دل پر بارِ محبت سہہ سکتے ہو

‏ایسے جیسے دھرتی بوجھ پہاڑوں کا سہتی رہتی ہے

‏دھرتی جس کے سینے پر پتھر ہوتے ہیں

‏لیکن کوکھ سے فصلیں دیتی ہے

‏جن سے نسلیں جیون کا گُڑ پیدا کرتی ہیں

‏آگے بڑھتی ہیں

‏گر تم کُھل کر ہنس نہیں سکتے

‏سُچے نِیر بہا نہیں سکتے

‏کبھی کبھی چُپ رہ نہیں سکتے

‏بارِ محبت سہہ نہیں سکتے

‏پھر تم خود کو کیسے زندہ کہہ سکتے ہو


سلطان ناصر

No comments:

Post a Comment