کیا تم ایسا کر سکتے ہو
کیا تم کُھل کر ہنس سکتے ہو
ایسے جیسے ان دیکھے جنگل کی ان دیکھی گھاٹی میں
پھول کِھلے اور کِھلتا جائے
اپنی خوشبو سے سرمست اور اپنے آپ سے بھرا ہوا
کیا تم نیر بہا سکتے ہو
ایسے جیسے بھادوں برکھا چھم چھم برسے، جل تھل کر دے
سُوکھے آنگن آن بھگوئے
لمبے لمبے سست دِنوں میں ہلچل کر دے
کیا تم پہر دو پہر کبھی چُپ رہ سکتے ہو
اپنے آپ کو خالی کر کے شانت سمے میں بہہ سکتے ہو
ایسے جیسے سیپی اپنے اندر موتی رکھتی ہے
اور کبھی کبھی خالی ہو جاتی ہے کہ نئے امکان تراشے
کیا تم دل پر بارِ محبت سہہ سکتے ہو
ایسے جیسے دھرتی بوجھ پہاڑوں کا سہتی رہتی ہے
دھرتی جس کے سینے پر پتھر ہوتے ہیں
لیکن کوکھ سے فصلیں دیتی ہے
جن سے نسلیں جیون کا گُڑ پیدا کرتی ہیں
آگے بڑھتی ہیں
گر تم کُھل کر ہنس نہیں سکتے
سُچے نِیر بہا نہیں سکتے
کبھی کبھی چُپ رہ نہیں سکتے
بارِ محبت سہہ نہیں سکتے
پھر تم خود کو کیسے زندہ کہہ سکتے ہو
سلطان ناصر
No comments:
Post a Comment