Thursday 29 July 2021

صحرا کا خالی جام ہوں مجھ سے گریز کر

 صحرا کا خالی جام ہوں مجھ سے گریز کر

یعنی کہ تشنہ کام ہوں، مجھ سے گریز کر

دیکھو تو دور تک نہیں مجھ میں کوئی شجر

اک دشتِ بے قیام ہوں، مجھ سے گریز کر

تیرا تو نیک نام ہے لوگوں میں، اور میں

رُسوائے خاص و عام ہوں مجھ سے گریز کر

تُو ہے حسین شخص، اُداسی نہیں بھلی

میں غم بھرا کلام ہوں مجھ سے گریز کر

پہچان جس کی مجھ سے ہوئی کہہ رہا ہے وہ

اب میں کسی کے نام ہوں مجھ سے گریز کر

ہر چند لُٹ چکا ہوں محبت کی راہ میں

عبرت کا میں مقام ہوں مجھ سے گریز کر

مرحب سرشت شخص مجھے جانتے نہیں

حیدر کا میں غلام ہوں، مجھ سے گریز کر


کاشف ظریف

No comments:

Post a Comment