نہیں نہیں وہ نہیں ہے یقیں نہیں ہوتا
زیادہ اس سے حسیں ہے یقیں نہیں ہوتا
ہم آسمان مزاجوں کے غم الگ ہی ہے
ہمارے دکھ میں زمیں ہے یقیں نہیں ہوتا
کمال ہے مِرے لہجے کا درد کچھ بھی نہیں
تجھے بھی اس پہ یقیں ہے یقیں نہیں ہوتا
عجیب عالمِ وصل و فراق طاری ہے
تُو جا چکا کہ یہیں ہے یقیں نہیں ہوتا
سکون و چین کی اب بات یار! رہنے دو
چلو بتاؤ کہیں ہے، یقیں نہیں ہوتا
ابھی بھی راہِ محبت میں وہ حسیں لڑکی
جہاں گِری تھی وہیں ہے یقیں نہیں ہوتا
عباس قمر
No comments:
Post a Comment