Saturday, 31 July 2021

نہیں نہیں وہ نہیں ہے یقیں نہیں ہوتا

 نہیں نہیں وہ نہیں ہے یقیں نہیں ہوتا

زیادہ اس سے حسیں ہے یقیں نہیں ہوتا

ہم آسمان مزاجوں کے غم الگ ہی ہے

ہمارے دکھ میں زمیں ہے یقیں نہیں ہوتا

کمال ہے مِرے لہجے کا درد کچھ بھی نہیں

تجھے بھی اس پہ یقیں ہے یقیں نہیں ہوتا

عجیب عالمِ وصل و فراق طاری ہے

تُو جا چکا کہ یہیں ہے یقیں نہیں ہوتا

سکون و چین کی اب بات یار! رہنے دو

چلو بتاؤ کہیں ہے، یقیں نہیں ہوتا

ابھی بھی راہِ محبت میں وہ حسیں لڑکی

جہاں گِری تھی وہیں ہے یقیں نہیں ہوتا


عباس قمر

No comments:

Post a Comment