میں بھی آدمی ہوں زمین کا، وہ بھی آدمی ہے خدا نہیں
بڑا صوفیانہ سا عشق ہے، اُسے پاس رہ کے چُھوا نہیں
مِرے چارہ گر! مِری زندگی پہ تُو مہرباں ہے بہت مگر
مجھے اس گُنہ کی سزا نہ دے جو گناہ میں نے کِیا نہیں
میں بکھر گیا ہوں تو کیا ہُوا، چلو آپ کا تو بَھلا ہوا
نہ نظر چُرائیے با خدا، مجھے آپ سے تو گِلہ نہیں
کہوں جس کی آنکھوں پہ میں غزل،کہوں جس کوحُسن کا بادشہ
کئی چہرے میں نے پڑھے مگر کوئی تیرے جیسا مِلا نہیں
مِرا حال پوچھ کے آپ نے، مِرا درد اور بڑھا دیا
کہ بچھڑ کے آپ سے جانِ جاں مِرے پاس کچھ بھی بچا نہیں
میں بھٹک رہا ہوں یہاں وہاں، کوئی ساتھ دے نہ کوئی اماں
میں ہوں تیرا نیرِ بے زباں، تیرے دِل میں کیا میں رہا نہیں
شہباز نیر
No comments:
Post a Comment