میں اک گھروندا ریت کا
ٹوٹ جاتا ہوں
ہاں میں ٹوٹ جاتا ہوں
لفظوں کی سختی سے
لہجوں کی گرمی سے
ٹوٹ جاتا ہوں
بے رُخی ہو یا بے وقتی خوشی
بے پناہ پیار ہو یا بے سبب نفرت
آدم سے نسبت ہے
میں ادنیٰ آدم ہوں
کمزور ہوں روٹھ جاتا ہوں
ہاں میں ٹوٹ جاتا ہوں
ہوا بھی تو مِرے برہنہ بدن پہ
بے دریغ کوڑے برساتی ہے
میں ایک پتہ خزاں کا
ٹوٹ جاتا ہوں
کبھی جو ابر برستا ہے
ظاہر گیلا ہوتا جاتا ہے
اندر ظاہر نہیں ہوتا
میں اندر سے بھی بھیگتا ہوں
اور بارش مِرے سب آنسو پی جاتی ہے
میں اک گھروندا ریت کا
ٹوٹ جاتا ہوں
ٹوٹنے کے بعد پھر سے
اکٹھا کرتا ہوں اپنا اک اک ذرہ
تخلیق دیتا ہوں خود کو پھر سے
ایک نئے امتحان کی خوشی کو
چابک کا زور بڑھتا ہے
پھر سے ٹوٹ جاتا ہوں
میں اک گھروندا ریت کا
زیف ضیا
No comments:
Post a Comment