Saturday, 31 July 2021

میں اک گھروندا ریت کا

 میں اک گھروندا ریت کا

ٹوٹ جاتا ہوں

ہاں میں ٹوٹ جاتا ہوں

لفظوں کی سختی سے

لہجوں کی گرمی سے

ٹوٹ جاتا ہوں

بے رُخی ہو یا بے وقتی خوشی

بے پناہ پیار ہو یا بے سبب نفرت

آدم سے نسبت ہے

میں ادنیٰ آدم ہوں

کمزور ہوں روٹھ جاتا ہوں

ہاں میں ٹوٹ جاتا ہوں

ہوا بھی تو مِرے برہنہ بدن پہ

بے دریغ کوڑے برساتی ہے

میں ایک پتہ خزاں کا

ٹوٹ جاتا ہوں

کبھی جو ابر برستا ہے

ظاہر گیلا ہوتا جاتا ہے

اندر ظاہر نہیں ہوتا

میں اندر سے بھی بھیگتا ہوں

اور بارش مِرے سب آنسو پی جاتی ہے

میں اک گھروندا ریت کا

ٹوٹ جاتا ہوں

ٹوٹنے کے بعد پھر سے

اکٹھا کرتا ہوں اپنا اک اک ذرہ

تخلیق دیتا ہوں خود کو پھر سے

ایک نئے امتحان کی خوشی کو

چابک کا زور بڑھتا ہے

پھر سے ٹوٹ جاتا ہوں

میں اک گھروندا ریت کا


زیف ضیا

No comments:

Post a Comment