میں اس کی نظم سنتی ہوں
تو سانسیں رک سی جاتی ہیں
وہ دل کے درد کو لفظوں میں کچھ ایسے پروتا ہے
کہ جیسے دور اک ویراں کھنڈر کے نیم محرابی سے کمرے میں
پڑے بوسیدہ سے اک ساز سے کوئی سوز جھڑتا ہو
میں اکثر سوچتی ہوں، درد سے اک درد کا
یہ رابطہ بھی کتنا گہرا ہے
میں اس کی نظم پڑھتی ہوں
تو دھڑکن تھم سی جاتی ہے
اور اکثر ایسا لگتا ہے
قلم کاغذ، گلے ملتے ہیں، روتے ہیں
کسی بے اعتنائی پر
کہ اپنی نارسائی پر
کہیں لمبی جدائی پر، کسی کی بے وفائی پر
عجب کیا ہے کوئی روئے
کہ اس کے لفظ بھی تو بین کرتے ہیں
وہ ایسے لفظ بُنتا ہے
مجسمہ ساز جیسے دھڑکنیں پتھر میں رکھ آئے
صبا خان
No comments:
Post a Comment