Saturday 31 July 2021

وہ ایسے لفظ بنتا ہے

 میں اس کی نظم سنتی ہوں

تو سانسیں رک سی جاتی ہیں

وہ دل کے درد کو لفظوں میں کچھ ایسے پروتا ہے

کہ جیسے دور اک ویراں کھنڈر کے نیم محرابی سے کمرے میں

پڑے بوسیدہ سے اک ساز سے کوئی سوز جھڑتا ہو

میں اکثر سوچتی ہوں، درد سے اک درد کا

یہ رابطہ بھی کتنا گہرا ہے

میں اس کی نظم پڑھتی ہوں

تو دھڑکن تھم سی جاتی ہے

اور اکثر ایسا لگتا ہے

قلم کاغذ، گلے ملتے ہیں، روتے ہیں

کسی بے اعتنائی پر

کہ اپنی نارسائی پر

کہیں لمبی جدائی پر، کسی کی بے وفائی پر

عجب کیا ہے کوئی روئے

کہ اس کے لفظ بھی تو بین کرتے ہیں

وہ ایسے لفظ بُنتا ہے

مجسمہ ساز جیسے دھڑکنیں پتھر میں رکھ آئے


صبا خان

No comments:

Post a Comment