خود کو پانے کی جستجو ہے وہی
اس سے ملنے کی آرزو ہے وہی
اس کا چہرہ اسی کے خد و خال
اپنا موضوعِ گفتگو ہے وہی
ہیں اسی کے یہ رنگ ہائے سخن
میرے پہلو میں خوب رو ہے وہی
کتنے موسم بدل گئے لیکن
دل وہی دل کی آرزو ہے وہی
ہے وہی شوقِ چاک دامانی
اور پھر خواہشِ رفو ہے وہی
خوئے تسلیم سر سلامت باد
بندگی طوق در گلو ہے وہی
کم نہیں شورِ نالہ و فریاد
ماتمِ شہرِ آرزو ہے وہی
حسن عابد
No comments:
Post a Comment