Saturday 31 July 2021

تبھی نمایاں ہوئی روشنی سمندر سے

 تبھی نمایاں ہوئی روشنی سمندر سے

نبھا رہا ہے کوئی دوستی سمندر سے

میں خودکشی کی تو قائل نہیں رہی تھی کبھی

مگر کسی کی جو آواز تھی سمندر سے

کسی کے پھینکے گئے پڑھ لیے خطوط اس نے

صدائیں آتی ہیں اب ماتمی، سمندر سے

تمہارے خواب مِری آنکھ کی سماعت ہیں

تمہارے آنسو مجھے قیمتی سمندر سے

یہ اتنے آنسو بھلا کون، کسے رویا تھا

اگر یہ بولتا میں پوچھتی سمندر سے

دلوں سے ہو کے ہی آنکھوں میں اشک آتے ہیں

ہمیشہ سے ہے نکلتی ندی سمندر سے

اگر ڈبونے کا آتا ہنر سمندر کو

کوئی بھی لہر نہ پھر کھیلتی سمندر سے

نہ ہوتا اقراء اگر چاند کا یہ آئینہ

میں اپنے رشتے سبھی توڑتی سمندر سے


اقراء عافیہ

No comments:

Post a Comment