تبھی نمایاں ہوئی روشنی سمندر سے
نبھا رہا ہے کوئی دوستی سمندر سے
میں خودکشی کی تو قائل نہیں رہی تھی کبھی
مگر کسی کی جو آواز تھی سمندر سے
کسی کے پھینکے گئے پڑھ لیے خطوط اس نے
صدائیں آتی ہیں اب ماتمی، سمندر سے
تمہارے خواب مِری آنکھ کی سماعت ہیں
تمہارے آنسو مجھے قیمتی سمندر سے
یہ اتنے آنسو بھلا کون، کسے رویا تھا
اگر یہ بولتا میں پوچھتی سمندر سے
دلوں سے ہو کے ہی آنکھوں میں اشک آتے ہیں
ہمیشہ سے ہے نکلتی ندی سمندر سے
اگر ڈبونے کا آتا ہنر سمندر کو
کوئی بھی لہر نہ پھر کھیلتی سمندر سے
نہ ہوتا اقراء اگر چاند کا یہ آئینہ
میں اپنے رشتے سبھی توڑتی سمندر سے
اقراء عافیہ
No comments:
Post a Comment