اب دیکھیے کیا شہ کے طرفدار کریں گے
سنتے ہیں کہ زنداں کو ہوا دار کریں گے
اقلیمِ نباتات کے الجھے ہوئے ریشے
اک بار تو انساں کو خبردار کریں گے
میخیں جو اکھاڑیں گے پہاڑوں کی تو سن لیں
افلاک کے موسم ہمیں بیمار کریں گے
کھو جائے گا یکلخت ہی لوگوں کا تیقن
ناسور کو زخموں کا عزادار کریں گے
تم ڈوب کے نکلو گے کسی اور کنارے
ہم قدموں سے وہ دشت یہاں پار کریں گے
ظالم نے تو اس بار یہی سوچ رکھا ہے
گھر پہلے ابابیل کے مسمار کریں گے
جسم اپنا ہی تھا لقمۂ تر بھوک میں اکرام
کیا اور بھلا زیست کے فنکار کریں گے
اکرام قاسمی
No comments:
Post a Comment